کولمبس اس علاقے کو انڈیا کا حصہ سمجھ رہا تھا، وہ پوری زندگی امریکا کو انڈیا سمجھتا رہا، 1506ء میں اس کے مرنے کے بعد اس کے دوست امریکانو ویسپیوسیو نے بادشاہ فرڈیننڈکو یہ بتا کر حیران کر دیا کولمبس انڈیا کا نیا راستہ تلاش کرتا کرتا کسی نئی دنیا میں اتر گیا ہے، بادشاہ فرڈیننڈنے حقائق معلوم کرنے کے لیے نئے لوگ اور نئے جہاز امریکا بھجوا دیے، امریکانو کی بات درست ثابت ہو گئی اور یوں اس نئی دنیا کا نام امریکانوویسپیوسیو کے نام پر امریکا رکھ دیا گیا۔ہابانہ ریڈ انڈینز کی لوکل زبان کا لفظ ہے، یہ رنگ، سگار اور خرگوش کے لیے استعمال ہوتا تھا، کولمبس کے زمانے میں لوکل لوگوں کا گروپ بھی ہابانہ کہلاتا تھا، کرسٹوفر کولمبس اکتوبر 1492ء میں پہلی مرتبہ لاطینی امریکا کے جزیرے بہاماس میں اترا، جزیرے کی خوب صورتی، فضا اور اور مقامی لوگوں کی سادگی نے اسے حیران کر دیا، لوگوں نے گلے میں کلو کے حساب سے سونے کے زیورات لٹکا رکھے تھے، اسے محسوس ہوا اس علاقے میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔یہ نئی دنیا سپینش لوگوں نے دریافت کی تھی۔
لہٰذا شروع میں یہی اس کے مالک تھے، بہاماس آج کی امریکی ریاست فلوریڈا کے بڑے شہر میامی اور آج کے ہوانا کے درمیان ہے، سپین کے جہاز ران 27 اکتوبر 1492ء کو پہلی مرتبہ ہوانا پہنچے، مقامی لوگ اس علاقے کو ہابانہ کہتے تھے، سپینش نے اسے ہابانہ قبول کر لیا لیکن پھر جب برطانوی جہاز ران آئے تو انہوں نے ہابانہ کو ہوانا بنا دیا مگر کیوبا کے لوگ آج بھی اسے ہابانہ ہی کہتے ہیں، سپینش نے 1514ء میں یہاں اپنی پہلی چھائونی بنائی، چھائونی امریکا آنے والے ہسپانوی جہازوں کو کمک، رسد اور سانس لینے کا ٹھکانہ فراہم کرتی تھی۔مقامی لوگ سپینش طالع آزمائوں کا پہلا نشانہ ثابت ہوئے، ریڈ انڈینز معصوم اور سادے لوگ تھے، یہ 36 ہزار سال تک باقی دنیا سے کٹے رہے تھے، امن و امان کے ساتھ رہتے تھے، ہتھیار تک نہیں بنائے تھے، سپینش لوگ ان کے ساحلوں پر اترے تو یہ دور دور سے انہیں دیکھنے آتے تھے لیکن نئی دنیا کے نئے آقائوں کو ان میں کوئی دل چسپی نہیں تھی، وہ ان سے بس سونا، تمباکو اور گنا حاصل کرنا چاہتے تھے۔وہ انہیں غلام بھی بنانا چاہتے تھے چناں چہ نئے آقائوں کی تلواریں تھیں اور امریکا کےمعصوم لوگوں کے سر اور گردنیں تھیں، مقامی قبائل تائینو (Taino) کہلاتے تھے، ان کی زبان بھی تائینو تھی، تائینو زبان نے دنیا کو تمباکو (ٹوبیکو)، کیوبا، سگار اور ہیری کین سمیت چار سو الفاظ دیے، یہ لفظ آج بھی مستعمل ہیں، مقامی لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا یہ جاننے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہو گی، سپینش نے بورائی (Boriay) کے علاقے میں اپنا پہلا ٹائون بنایا تھا، گردوپیش کے دیہات کے تین ہزار لوگ خیر سگالی کے لیے تحفے تحائف لے کر بورائی پہنچے لیکن ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا، نئے آقائوں نے سب کے سر اتار دیے، وہ انہیں قتل کرنے سے پہلے صرف ایک سوال پوچھتے تھے تمہارے گلے میں سونے کا جو ہار ہے تم نے یہ کہاں سے لیا تھا؟ وہ بے چارے پریشانی میں پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے تھے اور اس کے بعد ان کا سر اتار دیا جاتا تھا، تمباکو اس علاقے کی خاص سوغات تھا، سپینش کو محسوس ہوا وہ اس سے اربوں روپے کما سکتے ہیں چناں چہ انہوں نے مقامی لوگوں کو غلام بنایا اور انہیں سگار بنانے پر لگا دیا، ۔
ہزاروں غلامی میں مر گئے اور باقی پہاڑوں اور جنگلوں میں غائب ہو گئے، تمباکو اور گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والوں کی کمی ہو گئی، یہ کمی بعدازاں افریقی غلاموں کے ذریعے پوری کی گئی، افریقہ کے مختلف ملکوں سے ایک لاکھ سیاہ فام غلام نئی دنیا میں امپورٹ کیے گئے اور انہیں تمباکو اور گنے کے کھیتوں میں بیگار پر لگا دیا گیا، سیاہ فام غلاموں کی درجنوں نسلیں اس ظلم میں پیدا ہوتی اور مرتی رہیں، سیاہ فام غلاموں کی کہانیاں آج بھی امریکا کی فضا میں موجود ہیں۔ہوانا نے شہر کی حیثیت سے 1519ء میں جنم لیا، کیوبا کو کیوبا اور ہوانا کو ہوانا بنانے کے لیے چینی اور تمباکو دو صنعتیں کافی تھیں اور یہ دونوں یہاں وافر مقدار میں تھیں، سپینش ہوانا میں آئے اور سپین سے ساڑھے سات ہزارکلو میٹر دور یہاں ایک چھوٹا سا سپین آباد کر دیا، آپ نے اگر سپین کے پرانے شہر سیویا، غرناطہ، میڈرڈ اورمالگا دیکھے ہوں تو آپ کو ہوانا ان کا کزن محسوس ہو گا، پتھر کی وہی گلیاں، وہی سپینش ویلاز، یونانی اور اطالوی سٹائل کے ستون، آرچز اور سلائیڈنگ چھتیں، اونچے برآمدے، ڈیوڑھیاں اور صحن میں فواروں کے ساتھ مالٹے اور کیلے کے درخت، ہوانا ایک سرے سے دوسرے کونے تک سپین یا مراکو دکھائی دیتا ہے۔ہم رات کے وقت ہوانا کی گلیوں میں پھرتے تھے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا ہم پانچ سو سال پیچھے چلے گئے ہیں، قرطبہ کی گلیاں اور ہوانا کی گلیاں دونوں ایک جیسی ہیں، لوگ بھی حیران کن ہیں، یہ خوش ہونے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔
ہوانا کی آبادی ساڑھے 21 لاکھ ہے اور وہاں اتنے ہی گویے یا گلو کار ہیں، موسیقی اور گانا ان کے خون میں شامل ہے، تمام ریستورانوں، کافی شاپس، چوکوں اور چوراہوں میں گانا بجانا چلتا رہتا ہے۔یہ لوگ گھروں میں بھی گاتے بجاتے رہتے ہیں، اولڈ ہوانا کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی اثاثہ ڈکلیئر کر رکھا ہے یہاں پانچ سو پرانی عمارتیں اور گلیاں ہیں، ہر گلی اور ہر عمارت دل کھینچ لیتی ہے، کمیونسٹ ملک ہے، دکانوں سے لے کر گاڑیاں تک سرکاری کنٹرول میں ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال ہوانا میں بارہ لاکھ سیاح آتے ہیں، حکومت اور لوگ سیاحوں کی بہت عزت کرتے ہیں، سیاحوں کو لوٹنا تو دور یہ انہیں بری نظروں سے دیکھتے تک نہیں ہیں۔کیوبا کے 1961ء تک امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے، امریکا اپنی 82فیصد چینی کیوبا سے خریدتا تھا، لاطینی امریکا میں کیلا بے تحاشا پیدا ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ ریاستیں بنانا سٹیٹس کہلاتی ہیں، امریکا ایک وقت میں اپنی ضرورت کا تمام فروٹ، اناج، کھانے کا تیل اور شوگر لاطینی امریکا سےمنگواتا تھا لہٰذا یہ ان ملکوں میں مضبوط حکومتیں افورڈ نہیں کر سکتا تھا، اس نے اس لیے ان ملکوں کو “بنانا سٹیٹس” بنا دیا، جب چاہا کیلے کی طرح چھیل دیا، جب چاہاکیلے کی طرح مسل دیا۔1960ء کی دہائی تک کیوبا کی نوے فیصد شوگر انڈسٹری امریکی تاجروں کے قبضے میں تھی، وہ لوگ بے انتہا امیر اور بارسوخ تھے، انہوں نے پورے کیوبا میں بڑے بڑے فارم ہائوسز اور محلات بنا رکھے تھے، فیڈل کاسترو اور چی گویرا کے انقلاب کے بعد شوگر مافیا امریکا فرار ہوگیا، وہ بااثر لوگ تھے، ان کے دبائو کی وجہ سے امریکا نے کیوبا سے چینی کی امپورٹ بند کر دی، کیوبا کی پوری معیشت چینی، تمباکو اور کافی کے گرد گھومتی تھی
لہٰذا ملک شدید معاشی بحران کا شکارہو گیا، وہ کولڈ وار کا زمانہ تھا۔روس کو امریکا کے سر پر اپنا کوئی اتحادی چاہیے تھا اور دنیا میں کیوبا سے زیادہ بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی تھی چناں چہ سوویت یونین نے فوری طور پر کیوبا سے چینی خریدنا شروع کر دی اور یوں یہ ملک امریکا کی ہمسائیگی کے باوجود سوویت یونین کا اتنا بڑا اتحادی بن گیا کہ اس نے اکتوبر1962ء میں روسی میزائل نصب کیے اور ان کا رخ امریکا کی طرف کر دیا اور دنیا ایک ہی رات میں تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہو گئی، اس وقت اگر جان ایف کینیڈی عقل کا مظاہرہ نہ کرتا تو دنیا میں 1962ء میں ایٹمی جنگ چھڑ جاتی اور اس کے آخر میں بندہ رہتا اور نہ کوئی بندہ نواز۔روسی میزائل آج بھی ہوانا کے مورو قلعے کے ساتھ پڑے ہیں، سیاح روزانہ ان کی زیارت کرتے ہیں اور ان زائرین میں ہم چار پاکستانی بھی شامل تھے۔ ہوانا کے تین حصے ہیں، اولڈ ہوانا، یہ حصہ پانچ سو سال پرانا ہے اور عالمی ثقافتی اثاثہ ہے، وی دادو (Vedado) ، یہ ہوانا کا جدید اور مہنگا علاقہ ہے، زیادہ تر ایمبیسیاں اسی علاقے میں ہیں، اعلیٰ سرکاری افسر اور سیاست دان بھی اسی علاقے میں رہتے ہیں، یہ سمندر کے کنارے انتہائی خوب صورت اور مہنگا علاقہ ہے اور تیسرا علاقہ ہوانا کے مضافات ہیں، یہ فارم ایریاہے اور وہاں بڑے بڑے فارمز ہیں، ان فارمز میں ایک فارم دنیا کے مشہور لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کا بھی ہے، ارنسٹ امریکی تھا لیکن وہ 22سال ہوانا میں رہا، کیوں رہا اور کیسے رہا؟ یہ میں آپ کو آنے والے دنوں میں بتائوں گا۔
No Comments yet!