2 مئی 2011 کو امریکا نے اُسامہ بن لادن کے لیے رات کے اندھیرے میں ایبٹ آباد آپریشن کیا، جو پوری پاکستانی قوم کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث تھا لیکن اس واقعہ پر ردِعمل دیتے ہوئے ہمارے اُس وقت کے صدر ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘ آصف علی زرداری نے امریکی صدر کو مبارکباد پیش کی اور اسے ’’Very Good News‘‘ قرار دیا اور یہ بات اُس وقت کے امریکی صدر اوبامہ نے اپنی تصنیف ’’A Promised Land‘‘میں بھی لکھی۔ پاکستان کی خود مختاری پر اس امریکی حملے کی مذمت کے لیے ایک لفظ تک صدر آصف علی زرداری نے نہیں بولا، اِسی وجہ سے اوبامہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ دو مئی کے حملے کے بعد پاکستانی قیادت سے بات کرنا مشکل ہوگا لیکن اس کے برعکس یہ بہت آسان تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ دو مئی کا امریکی آپریشن پاکستان اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی ہے۔ دوسرے روز یعنی 3 مئی کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اُس امریکی حملے پر احتجاج کیا۔
اُس واقعہ کے بعد فوج کے میگزین ہلال کے انگریزی شمارے میں جو ایڈیٹوریل لکھا گیا اُس میں اُس 2 مئی کو ’’Big day‘‘یعنی بڑا دن قرار دیا گیا جبکہ دو مئی کے بعد کور کمانڈر میٹنگ میں اُس وقت کے آرمی چیف نے اِس واقعہ پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما ہوتا ہے تو امریکا کے ساتھ فوجی اور انٹیلیجنس تعاون کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ وکی لیکس کو پڑھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہمارے ذمہ دار امریکا کی خوشنودی کے لیے کس قدر گر سکتے ہیں۔ امریکا کے ہم غلام ہیں، یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اور ہماری سوچ میں یہ بات رچ بس گئی ہے، اسی لیے تو جو مراسلہ پاکستان کو ملا اور جس طرح اُس میں عمران خان حکومت کی رخصتی کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور ایسا نہ ہونے پر پاکستان کے لیے خطرناک نتائج کا عندیہ دیا گیا، اُسے بہت سوں نے یہاں ایک عام سا سفارتی عمل قرار دیا جس پر اُن کے مطابق کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
بےشک عمران خان حکومت نے اس مراسلہ کو اپنے سیاسی مقاصد اور عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے استعمال کیا اور اسے ایک سازش گردانا جس میں اپوزیشن پر اس سازش میں شامل ہونے کا الزام بھی لگایا گیا لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ اس مراسلے میں ایسا بہت کچھ تھا جو پاکستان کے لیے توہین کا باعث ہے۔ بلاشبہ، یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا نے عمران خان حکومت کو گرانے کے لیے کوئی تدبیر کی ہو، کیوں کہ ایسا کرنا امریکا کے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن عمران خان کا بغیر ثبوت کے اپوزیشن پر بھی سازش میں شامل ہونے کا الزام لگانا اور اُنہیں غدار قرار دینا سیاست میں مزید نفرت اور رنجشیں بڑھانے کا باعث بنا. دوسری طرف اپوزیشن اور میڈیا کے ایک طبقے نے تو اُس مراسلے، جس پر کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی نے باقاعدہ ناراضی کا اظہار کیا اور جس کے نتیجے میں امریکی سفارت کار کو وزارتِ خارجہ بلا کر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اگر کسی نے تسلیم بھی کیا تو یہ بحث کی کہ اس میں بےعزتی یا ناراضی کی کیا بات ہے۔ کچھ نے یہ بچگانہ بحث کی کہ اگر یہ مراسلہ واقعی پاکستان کی خودمختاری کے خلاف تھا تو پھر عمران خان حکومت نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کو حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی او آئی سی کانفرنس میں شرکت کی دعوت کیوں دی؟ کوئی پوچھے، کیا ایسے معاملات پر دوسرے ممالک سے کُٹی کردی جاتی اور ہر قسم کی بول چال اور رابطے منقطع کر دیے جاتے ہیں، جنگ شروع کردی جاتی ہے؟
ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے دھندے میں اپوزیشن نے بھی کہا کہ یہ مراسلہ ایک جھوٹ ہے۔ اور جب پتا چلا کہ جھوٹ نہیں تو (ن) لیگ کے خواجہ آصف سامنے آتے ہیں اور قوم کو سمجھاتے ہیں کہ ہم تو امریکا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ خواجہ صاحب کے اس بیان پر اُنہی کا ایک پرانا بیان ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ یاد آگیا۔ نہلے پہ دہلے کا کام میاں شہباز شریف نے کیا جن کا جب خواجہ آصف کے بیان پر تبصرہ لیا گیا تو کہنے لگے کہ بھکاریوں کی کوئی پسند نا پسند نہیں ہوتی، ہمیں اپنے لوگوں کا پیٹ پالنا ہے۔
یعنی شہباز صاحب نے تو پاکستانی قوم کو بھکاری بنا دیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ نہ ہماری کوئی عزت ہے نہ قومی وقار، بس اپنے اپنے پیٹ کی فکر کرو۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
No Comments yet!