بہت سالوں کے بعد اتوار 3اپریل 2022ء کی صبح تقریباََ انوکھی محسوس ہوئی کیونکہ بستر سے اُٹھنے کے بعد میں یہ کالم لکھنے نہیں بیٹھ گیا۔ گزشتہ جمعہ کے دن قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کوباقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر گنتی کے آغاز کے لئے اتوار کی صبح یہ اجلاس طلب کررکھاتھا۔ وہاں جلد از جلد پہنچنا میری ترجیح تھا۔ بہرحال میرے پہنچنے سے قبل ہی پریس گیلری بھرچکی تھی۔
ساتھیوں کی مہربانی انہوں نے وہ نشست میرے لئے خالی کردی جو میری ذات کے ساتھ گویا مختص ہوچکی ہے۔ درجنوں ساتھیوں سمیت ہم اجلاس کے باقاعدہ آغاز کا انتظارکرتے رہے۔ بالآخر وقت مقررہ سے تقریباََ آدھے گھنٹے بعد اجلاس کا آغاز ہوا۔ اپوزیشن نشستوں پر تحریک انصاف کے “منحرف” قرار دئے اراکین کے بغیر176افراد براجمان تھے۔ یہ تعداد واضح طورپر عندیہ دے رہے تھی کہ اگرتحریک عدم اعتماد گنتی کے لئے پیش ہوئی تو عمران خان صاحب ہمارے وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ عمران صاحب نے تاہم دشمنوں کو شکست سے دو چار کرنے کے لئے کئی پتے چھپارکھے تھے۔ جو پتہ انہوں نے اتوار کے روز کھیلا اس کا کم از کم مجھ جیسا “تجربہ کار” تصور کیا پارلیمانی رپورٹر ذہن میں لا ہی نہیں سکاتھا۔
تلاوت کلام پاک ختم ہوتے ہی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے فواد چودھری کو مائیک دے دیا۔ چودھری صاحب کو ایک روز قبل ہی وزارت قانون کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔ اس حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 5کا حوالہ دیا۔ اس آرٹیکل کی من پسند تشریح کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ درحقیقت امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہم افسر کی واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر کے ساتھ 7مارچ کے دن ہوئی ملاقات میں تیار ہوگیا تھا۔ مذکورہ ملاقات میں عمران خان صاحب کی خارجہ پالیسی پر شدید خفگی کا اظہار ہوا اور وا ضح طورپر بتادیا گیا کہ ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات دوستانہ تو کیا معمول کے مطابق بھی نہیں رہیں گے۔ شاید وہ شدید مخاصمت کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں۔ فواد چودھری مصر رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ ملاقات کے بعد ہی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ اگر اس پر گنتی کروائی گئی تو دشمنوں کا مقصد پورا ہوجائے گا۔
پاکستان کی “خودمختار” اسمبلی کو الہٰذا تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے بجائے اسے مکمل طورپر رد کردینا چاہیے۔ قاسم سوری صاحب نے ان سے کامل اتفاق کیا۔ 8مارچ کے روز پیش ہوئی تحریک کو “مسترد” کردیا اور اسمبلی کا اجلاس کوئی اگلی تاریخ دئے بغیر مؤخر کردیا۔ جب وہ اپنا فیصلہ سنارہے تھے تو وزیر اعظم صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اطلاع دی کہ انہوں نے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھجوادی ہے۔ ایسی ایڈوائس پر فی الفور عملدرآمد صدر کے لئے لازمی ہے۔ وطن عزیز لہٰذا اب قومی اسمبلی کے بغیر چل رہا ہے۔ قومی اسمبلی مگر واقعتا تحلیل ہوگئی ہے تو منہدم ہوئے ایوان کے قائدیعنی عمران خان صاحب اب ہمارے وزیر اعظم بھی نہیں رہے۔ صدر نے غالباََ انہیں عبوری وزیر اعظم کے چنائو تک کام کرنے کی سہولت فراہم کردی ہوگی۔ تاہم اس آئینی تقاضے سے اب مفر کی گنجائش نہیں رہی کہ قومی اسمبلی کے نئے انتخابات کی تاریخ کا ا علان کیا جائے اور انہیں منعقد کروانے کے لئے وفاق میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جا ئے۔اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس واحد راستہ یہ بچاہے کہ وہ فی الفور سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔ اس سے فریاد کرے کہ وہ وزیر اعظم جس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی ہو قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس دینے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اتوار کے روز تحلیل ہوئی قومی اسمبلی کو لہٰذا بحال کیا جائے اور وہ 8مارچ کے دن قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کا عمل مکمل کرے۔ اگر وزیر اعظم اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہیں تو نئے وزیر اعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔
اس سے قبل 1993ء میں بھی سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق کی جانب سے برطرف ہوئی قومی اسمبلی کو بحال کرنے کا “تاریخی فیصلہ” صادر کیا تھا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سپریم کورٹ اب کی بار تاریخ دہرانا چاہے گی یا نہیں۔ عمران خان صاحب کو اگرچہ 2016ء سے سپریم کورٹ مسلسل آئینی کمک فراہم کرتی چلی آرہی ہے۔ وہ اس کی جانب سے صادق اور امین بھی ٹھہرائے جاچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل کرتے ہوئے عمران خان صاحب کے لئے “گلیاں ہون سنجیاں ” والا ماحول بنایا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ اسی روایت ہی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ کالم ختم کرنے والا تھا تو خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے اتوار کے روز لئے اقدامات کا ازخودنوٹس لے لیا ہے۔ اب فیصلہ جوبھی ہو اتوار کے دن کھیلے “ٹرمپ کارڈ” کے ذریعے عمران خان صاحب نے شدید تر آئینی بحران یقینا پیدا کردیا ہے۔ اسے حل کرنے کے لئے اعصاب شکن مراحل سے آئندہ کئی ہفتوں تک گزرنا ہوگا۔ دیکھیں ہیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک۔
No Comments yet!